Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 عادلہ بے چین سی پورے گھر میں خیرون کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی اور وہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھی وہ اس کو ڈھونڈتی ہوئی صباحت کے روم میں آئی تو انہیں ٹشو سے آنسو صاف کرتے دیکھ کر پریشان ہوکر پوچھنے لگی۔ 
”ممی! آپ رو رہی ہیں، کیا ہوا؟پھر پاپا نے جھگڑا کیا ہے ؟“
”ہاں !ان کو آتا ہی کیا ہے ماسوائے جھگڑنے اور غصہ کرنے کے ، سب سے ہنس ہنس کر باتیں ہوتی ہیں، مسکرا مسکرا کر پلان بنائے جاتے ہیں اور تمام جلی کٹی میری جھولی میں بھردیتے ہیں“
”پاپا ڈسٹرب ہیں ممی! وہ بہت اداس رہنے لگے ہیں“
”میں تو جیسے بہت خوش رہتی ہوں نا ، کوئی میرے دکھ کو نہیں سمجھتا ؟میں نے از خود عائزہ کو ایسا کچھ کرنے کی چھوٹ نہیں دی تھی میں نے تو اس پر بہترین بیٹی ہونے کا اعتماد کیا تھا، وہ یہ صلہ دے گی مجھے معلوم نہ تھا، میں بھی اندر سے اتنی ہی دکھی ہوں جتنے فیاض ہیں۔


عائزہ نے ان کے ہی نہیں میرے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچایا ہے“
”اوہ ممی! آپ تو بہت زیادہ جذباتی ہوگئی ہیں“عادلہ نے انہیں بازوؤں میں بھرتے ہوئے محبت سے کہا۔ 
”آپ فکر مت کیا کریں ممی! وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا ، پاپا بھی سب بھول کر ٹھنڈے ہوجائیں گے آپ کیوں ان کی باتوں کو دل سے لگاکر اپنی خوشیوں کو خراب کر رہی ہیں“
”دل سے کیوں نہ لگاؤں ان کی باتوں کو میری بیٹی کی شادی ہے اور تیاریاں وہ کرے جو مجھے بدترین دشمن لگتی ہے اپنی اور اپنی بیٹیوں کی ۔
دیکھنا کس مکاری سے اس نے مجھے دودھ میں گری مکھی کی طرح نکال پھینکا ہے“عادلہ کے شانے پر سر رکھ کر وہ آزردہ لہجے میں گویا ہوئیں۔ 
”ڈونٹ وری ممی! آپ ریلیکس رہیں، کوئی کچھ بھی کرے مگرعائزہ کی ممی آپ ہی رہیں گی، جو اہمیت و عزت آپ کو ملے گی وہ پری اور دادی جان کو کبھی نہیں مل سکتی“
”ہوں! کہہ تو ٹھیک رہی ہو تم عادلہ! میری جگہ کوئی نہیں لے سکتا“عادلہ کی باتوں سے ان کو غصے و جھنجلاہٹ کے احساسات سے نکال لیا تھا وہ مطمئن انداز میں بیٹھی ہوئی مسکرا کر گویا ہوئی تھیں۔
 
”کیا ابھی تک آپ کو شیری پک کرنے نہیں آیا ہے ؟“وہ اپنی پریشانیوں سے نکلیں تو ان کو یاد آیا وہ شہریار کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوئی تھی ۔ 
”اوہ ممی! میں یہاں خیرون کو دیکھنے آئی تھی اس نے اطلاع دی تھی شیری کے آنے کی، میں اس وقت جیولری پہن رہی تھی سو میں نے خیرون سے کہا وہ ان کو بٹھائیں اور ملک شیک سرو کرے خیروہ چلی گئی تھی، میں ریڈی ہوکر لیونگ روم میں گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
میں نے احتیاطاً کی ہول سے دادی کے روم میں جھانکا وہاں دادی کے علاوہ پاپا اور طغرل بھائی موجود تھے، شیری نہیں تھے وہاں“
”یہ کیا بات ہوئی بھلا شہریار آئے تو پھر کہاں چلے گئے“
”وہ واپس چلے گئے ہیں واچ مین نے بتایا ہے میرے معلوم کرنے پر“
”واپس چلے گئے …مگر اس طرح بغیر بتائے کیوں چلے گئے ؟تم کال کرکے معلوم کرو جب وہ تمہیں پک کرنے آئے تھے تو ایسے کیوں گئے ہیں ؟“وہ پریشان لہجے میں گویا ہوئیں۔
 
”یہی معلوم کرنے کے لیے میں خیرون کو ڈھونڈتی پھر رہی ہوں اور وہ ہے کہ غائب ہوگئی ہے کام چور بیٹھ گئی ہوگی کہیں بہانے سے اور شیری نے بھی سیل فون آف کیا ہوا ہے مجھے تو ٹینشن ہورہی ہے“
”بات تو پریشان ہونے کی ہے عادلہ! ان کا اس طرح جانا معنی رکھتا ہے“
”ممی! پاپا نے کوئی اعتراض کیا ہو شاید؟وہ آج کل ویسے ہی ٹچی ہوں رہے ہیں عائزہ کے افیئر کے معاملے میں“
”نہیں نہیں عادلہ! ایسی بات نہیں ہوگی، عابدی کی فیملی پر فیاض آنکھیں بند کرکے اعتماد کرتے ہیں، شیری کو وہ گھر کے فرد کی طرح ہی سمجھتے ہیں اور فیاض شیری کے آنے سے قبل آگئے تھے باتھ لینے کے بعد وہ اماں کے روم میں گئے ہیں شیری کی آمد سے وہ قطعی بے خبر ہیں“
”ممی! شیری کا جھکاؤ کہیں پھر پری کی طرف تو نہیں ہوگیا ہے ؟“ایک وسوسے نے اس کو ڈنک مارا اور وہ دہل کر بولی۔
 
”نہیں میری جان ! تم ایسا فضول کچھ مت سوچو، شک کا بیج تم نے شیری کے ذہن میں بویا ہے وہ ضائع نہیں جائے گا، شک و شبہے کے لیے مرد کا ذہن بے حد زرخیز ہوتا ہے ایسے جذبات ان کے اندر بے حد تیزی سے پروان پاتے ہیں شیری کے ذہن میں بھی وہ بیج اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہوگا۔ پری کی پارسائی و شرافت پر وہ اب کبھی بھی یقین نہیں کرے گا“انہوں نے ہنستے ہوئے اس کو حوصلہ دیا۔
 
”بی بی جی ! آپ بلارہی تھیں مجھے ؟“ہانپتی ہوئی خیرون نے آکر پوچھا۔ 
”ہاں ! کہاں تھیں تم ؟کب سے ڈھونڈ رہی ہوں“عادلہ نے اس کو گھورتے ہوئے غصے سے پوچھا۔ 
”وہ جی اماں جان نے اسٹور روم میں سے ٹرنک میں رکھا ہوا سامان نکالنے کا کہا تھا وہ ہی نکال رہی تھی“اس نے وجہ بتاتے ہوئے کہا۔ 
”اچھا بس ایسے ہی بہانے ہوتے ہیں تمہارے پاس یہ بتاؤ شیری کو جاتے ہوئے دیکھا تم نے ؟میں نے تم سے کہا تھا ان کو لیونگ روم میں بٹھاؤ؟“
”میں نے کہا تھا ان سے وہ لیونگ روم میں تشریف رکھیں، میں ملک شیک لاتی ہوں مگر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کارنر والا روم کس کا ہے، میں نے بتادیا طغرل صاحب کا روم ہے۔
”طغرل بھائی کے روم کے بارے میں کیوں پوچھا انہوں نے ؟،،عادلہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے انداز میں بولی۔
”معلوم نہیں جی پر اس وقت وہ کچھ پریشان تھے“
”اچھا اچھا ٹھیک ہے تم نے شاید ٹھیک محسوس نہیں کیا ہوگا۔ اب جاکر رات کے کھانے کا انتظام کرو،، خیرون کی آنکھوں میں تجسس کی پرچھائی دیکھ کر صباحت نے رسانیت سے اس کو سمجھاتے ہوئے وہاں سے ٹالا اور عادلہ سے غصے سے گویا ہوئیں۔
 
”کیا بے وقوفی کرتی ہو عادلہ! ملازماؤں سے بھی کبھی ایسے پوچھا جاتا ہے دیکھا تم نے کس طرح وہ کرید کرید کر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر رہی تھی“
”میں نے بے دھیانی میں اس سے پوچھ لیا تھا اور ویسے بھی اس میں اتنی جرات نہیں ہے کہ کسی اور سے یہ بات کرے، جانتی ہے وہ مجھ کو اچھی طرح“
”کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے ملازمین ہمارے درودیوار پر چھپکلیوں کی طرح چپکے رہتے ہیں تاکہ ہمارا راز جان کر موقع سے فائدہ اٹھاسکیں، ان لوگوں سے محتاط رہنا ہی بہتر ہے ۔
”اوکے ممی! میں آئندہ احتیاط کروں گی، میری سمجھ نہیں نہیں آرہا شیری نے طغرل کے روم کا کیوں پوچھا اور پھر غصے میں کیوں چلا گیا ؟“
”فکر مت کرو اس کے غصے کا تعلق آپ سے ہرگز نہیں ہے، پری کی محبت جو اب نفرت میں بدل گئی ہے یہ اسی کا اثر لگتا ہے ۔“
###
”آپ نے یکطرفہ فیصلہ کیا ہے چچا جان ! اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے قبل آپ کو فاخر کے والدین سے بات کرنی چاہیے ان کی رضا مندی ضروری ہے بارات ان لوگوں کو لانی ہے“طغرل نے فیاض سے کہا تو وہ دھیمے سے مسکرا کر گویا ہوئے ۔
 
”برخودار! عارف بھائی سے دو دن پہلے بات کرچکا ہوں میں ، فرخندہ بھابی اپنے کسی عزیز کے چہلم میں جھنگ گئی ہوئی ہیں وہ آجائیں تو عارف بھائی آئیں گے اماں کے پاس، دستور کے مطابق ڈیٹ فکس کرنے کے لیے“
”تو کیا فرخندہ مان جائیں گی ؟بڑی ٹیڑھی کھیر ہیں وہ بھی مزاج اور طنطنے میں صباحت سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں“
”عارف بھائی نے مکمل یقین دلایا ہے مجھے وہ بھی بلاوجہ کی نمودونمائش پسند نہیں کرتے وہ بھابھی صاحبہ کو بھی راضی کر ہی لیں گے“
”امان جان! عامر، آصفہ کو بلوالیں، ان کے سامنے ایک بار بات ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے ہم سب ساتھ ہوں گے اچھا مشورہ مل جائے گا“
”تم نے اس طرح ہتھیلی پر سرسوں جمائی ہے فیاض کہ سچ مانو میری عقل تو کام ہی نہیں کر رہی ہے اب دیکھو اتنی اہم بات ہے اور میں ان دونوں کو بتانا بھول گئی ہوں اب آکر مجھ سے شکایت کریں گی کہ ایسے موقع پر ان کو پوچھا ہی نہیں گیا ہے“انہوں نے پان کی گلوری منہ میں رکھتے ہوئے سٹپٹائے لہجے میں کہا۔
 
”آپ فکر مت کریں اماں! میں ان کو بتادوں گا یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے میری بات سن کر وہ ناراض نہیں ہوں گی ، یہ مجھے یقین ہے ۔“
”عامرہ اور آصفہ پھوپھو اتنی سویٹ نیچر ہیں دادی جان، وہ کسی سے بھی زیادہ عرصہ ناراض نہیں رہ سکتی ہیں پھر آپ اور چچا جان سے تو بالکل بھی خفا نہیں ہوسکتی ہیں۔“طغرل نے پریقین لہجے میں کہا۔ 
”ارے بس رہنے دو تم نے ابھی ان کی اصلیت نہیں دیکھی، جب بدلحاظی پر آتی ہیں تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتی ہیں دونوں“
”ایسے تو نہ کہیں ان کو وہ بہت نائس ہیں امان جاں !“فیاض نے اٹھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا تھا۔
 
###
ماضی کی یادوں نے ما ہ رخ کو اس طرح لہو لہان کردیا تھا کہ وہ بے اختیا ہوکر تیز تیز رونے لگی تھی اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ باہر صحن میں کام کرتی ہوئی ملازماؤں کی سماعتوں تک پہنچ رہی تھی وہ سب کام چھوڑ کر اس کے روم کے باہر جمع ہوگئی تھیں کیونکہ اس وقت غفران احمر روم میں موجود نہ تھا۔ ماہ رخ نے تنہائی سے گھبرا کر بھاری ریشمی پردہ کھسکا کر جالی کے پردے کھینچ دیے تھے اور ان پردوں کے باہر ملازمائیں حیران و متجسس انداز میں کھڑیں اس کو زاروقطار روتا ہوا دیکھ رہی تھیں لیکن کسی کی ہمت نہ تھی کہ وہ روم میں جانے کی جرات کرتی وہ وہاں ایک دوسرے سے اشاروں میں اس کے اس طرح رونے کی وجہ دریافت کر رہی تھیں جس سے وہ سب ہی ناواقف تھیں، ماہ رخ ان سے بے پروا روئے جارہی تھی ۔
 
ایک ملازمہ جاکر ہاجرہ کو بلا کر لے آئی تھی اس نے پہلے اس کو دیکھا پھر الٹے قدموں دلربا کے پاس پہنچی تھی جو بیڈ پر نیم دراز انگور کے گچھے سے انگور نکال کر کھارہی تھی ۔ 
”دلربا!دلربا! وہ لڑکی بہت رو رہی ہے میں دیکھ کر آئی ہوں“
”مرنے دو کم بخت کو میری بلا سے روئے یا مرے، مجھے اس سے کیا“دلربا نے نفرت بھرے لہجے میں جواب دیا اور اپنے شغل میں مصروف رہی ۔
 
”ایسا تو مت کہو دلربا! خدا جانے اس کو ایسی کیا تکلیف ہے جو وہ اس طرح رو رہی ہے ، چلو ہم چل کر اس کا دکھ بانٹتے ہیں تسلی دیتے ہیں“ہمدرد طبیعت کی ہاجرہ اس کے دکھ پر تڑپ کر رہ گئی تھی ۔ 
”تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے ہاجرہ! وہ لڑکی بھی تمہاری اور میری طرح کسی مجبوری میں غفران احمر کو مل گئی ہوگی، وہ جوان اور بے حد حسین لڑکی ہے اس کا اور غفران احمر جیسے عمر رسیدہ شیدہ شخص کا کوئی جوڑ نہیں ہے ۔
اس عمر میں اس کے حسن کے پروانے کیا کم ہوں گے“
”تم کچھ بھی کہہ لو میرا دماغ اس بدبخت کی طرف سے کبھی صاف ہونے والا نہیں ہے اپنی بے عزتی میں کبھی نہیں بھول سکتی غفران احمر نے میری جگہ اس کو ملکہ بنایا ہے میری جگہ اس کو دی ہے“وہ کسی طرح بھی اس کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھی ۔ 
”سوچ لو اگر اس لڑکی کو کچھ ہوگیا تو غفران احمر ہمارا کیا حشر کرے گا؟تمام ملازماؤں نے اس کو روتے ہوئے دیکھ لیا ہے اور تم جانتی ہو احمر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں، کسی نے اس کو بتایا تو پھر ہمارا کیا ہوگا ؟،،ہاجرہ کی بات پر اس کی عقل بیدار ہوئی تھی ۔
یہ حقیقت تھی اس محل میں نفسا نفسی کا عالم تھا یہاں موجود وہ تمام عورتیں جو کسی دور میں غفران احمر کی منظور نظر تھیں پھر جس جس کی عمر کا چاند ڈھلتا گیا وہ اس محل کی سنگلاخ دیواروں میں ملازماؤں کی صورت میں قید ہوتی چلی گئی وہ اس خوب صورت زندان میں مرتے دم تک کے لیے قید کرلی گئی تھیں۔ جن پر باہر کی دنیا کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے گئے تھے ، ایک عرصہ گزرنے کے بعد وہ یہاں کی عادی ہوگئی تھیں۔
 
ایک دوسرے سے محبت کرتیں اور خیال رکھتی تھیں مگر غفران احمر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے وہ ایک دوسرے کی غلطیوں پر نگاہ رکھتی تھیں۔ 
”تم جاکر دیکھو اس پر کیا موت آپڑی ہے میں آتی ہوں ابھی“ہاجرہ اس کی اجازت پاتے ہی وہاں سے ماہ رخ کے روم کی طرف آئی اور وہاں موجود ملازماؤں کو بھیج کر ماہ رخ کے قریب بیٹھ گئی ۔ 
”کیا ہوا ہے تم کو ؟کسی تکلیف میں ہو تم؟“وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر محبت سے پوچھ رہی تھی وہ کچھ نہیں بولی صرف روتی رہی ۔
 
”تم مجھے اپنی تکلیف بتاؤگی تو میں تمہاری مدد کروں گی ، تم گھبراؤ نہیں مجھے اپنی بڑی بہن سمجھو، مجھے تم سے ہمدردی ہے تم خود کو ادھر تنہا نہیں محسوس کرو، بتاؤ کیوں اس قدر رو روہی ہو؟“اس کے لہجے میں محبت کی پھوار برس رہی تھی وہ اجنبی چہرہ جس کو وہ بار بار دیکھ چکی تھی جس سے تکلم کا موقع ہی نہیں ملا تھا بہت اپنائیت بھری نگاہوں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔
ماہ رخ کی ڈھارس بندھی وہ آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولی۔ 
”کوئی بات نہیں ہے ، بس ایسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو“
”ٹھیک کیا تم نے جب رونے کا دل چاہے تو رو لینا چاہیے، آنسو ہمارے دل کی ساری پریشانی، تفکرات، دکھ و درد اپنے ساتھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ اچھا منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں قہوہ بنا کر لاتی ہوں پھر ہم باتیں کریں گے“

   1
0 Comments